📊 بجٹ 2025-26 کا تجزیہ — ایک عام شہری کی نظر میں
Budget 2025-26 Analysis — From the Perspective of a Common Citizen
بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، مگر اس ریلیف کو دیگر ٹیکسوں کے ذریعے بے اثر کر دیا گیا۔ آن لائن رقم نکلوانے پر ٹیکس، ہر ٹرانزیکشن پر کٹوتی، اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز نے عام ملازم کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔
The government announced a 10% salary hike for public employees and a 7% pension increase. However, these reliefs are neutralized by increased taxes on withdrawals, transfers, and everyday necessities. The salaried class is once again left burdened and disillusioned.
🏠 پراپرٹی سیکٹر — ایک بار پھر نوازشات
پراپرٹی سیکٹر کو بچانے کے لیے ٹیکس چھوٹ، سود کی شرح میں کمی، اور سرمایہ کاری کی ترغیبات دی گئی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مینوفیکچرنگ اور انڈسٹری کا سرمایہ پراپرٹی میں پھنس جاتا ہے اور صنعتی ترقی رُک جاتی ہے۔
Real estate has been favored again with tax breaks, reduced interest rates, and investment incentives. As a result, capital diverts from manufacturing to property, stalling industrial growth.
🏭 انڈسٹری اور مینوفیکچرنگ — مزید بوجھ، کم مراعات
امیپورٹڈ خام مال پر مزید ٹیکس عائد کیے گئے ہیں، جس سے مقامی صنعتیں پریشان ہیں۔ انڈسٹری کو ترقی دینے کے بجائے رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ یہ پالیسی معیشت کے پیداواری شعبے کو کمزور کر رہی ہے۔
Additional taxes on imported raw materials have increased the burden on local industries. Instead of promoting manufacturing, obstacles are being placed, weakening the productive sectors of the economy.
🌞 توانائی کا بحران — سولر پر بھی ٹیکس
جب مہنگی بجلی عوام کی کمر توڑ رہی ہے، ایسے میں سولر پینلز پر ٹیکس عائد کر دینا قابلِ افسوس ہے۔ حکومت نے قابلِ تجدید توانائی کو بھی مہنگا کر دیا ہے۔
While expensive electricity already burdens citizens, taxing solar panels is a regressive step. Renewable energy has also been made costly, which is counterproductive in today’s energy crisis.
🚗 گاڑیاں — چھوٹی گاڑی، بڑا ٹیکس
ایک عام آدمی جو زندگی بھر جوڑ کے آلٹو جیسی چھوٹی گاڑی لینا چاہتا ہے، اس پر 18٪ سیلز ٹیکس اور 1٪ کاربن ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔ عوام کی بنیادی سہولت کو لگژری بنا دیا گیا ہے۔
A small car like Alto, once within reach of the common man, is now taxed with 18% sales tax and 1% carbon duty. Basic convenience is now a luxury.
🛒 ای کامرس اور اسٹارٹ اپس — حوصلہ شکنی
ای کامرس پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر کے نوجوانوں کے ڈیجیٹل کاروبار کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ جو نوجوان اسٹارٹ اپ شروع کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ ماحول غیر موزوں ہے۔
With 18% sales tax on e-commerce, digital startups are being actively discouraged. Young entrepreneurs are being driven away from innovation.
📚 تعلیم اور ترقیاتی اخراجات — ترجیحات کا فقدان
یونیورسٹیوں کے لیے صرف 65 ارب روپے جبکہ ریلوے جیسے خسارے والے ادارے کو 120 ارب روپے دیے گئے۔ تعلیم کو نظر انداز کرنا ملکی مستقبل سے غداری کے مترادف ہے۔ ترقیاتی بجٹ کے لیے 1000 ارب کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے مگر شفافیت کا فقدان ہے۔
Only Rs. 65 billion has been allocated for universities, while the loss-making railway gets Rs. 120 billion. Education remains neglected. Meanwhile, Rs. 1 trillion is allocated for “development” with little transparency.
🌾 زراعت — بے سہارا شعبہ
زراعت جس پر ملک کی خوراک کا دار و مدار ہے، اس کے لیے نہ کوئی واضح پالیسی ہے نہ مراعات۔ کسان آج بھی بے یار و مددگار ہے۔
Agriculture, the backbone of food security, remains policy-less and unsupported. Farmers continue to struggle without proper aid or reform.
💰 نان فائلر کا خاتمہ — ایک مثبت قدم
نان فائلر کیٹیگری ختم کر کے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے جو خوش آئند ہے۔ اب پراپرٹی، گاڑی یا بینک ٹرانزیکشن کے لیے سب کو فائلر بننا ہوگا۔
The abolition of the non-filer category is a step in the right direction. It will encourage broader tax compliance and bring more people into the net.
⛽ پٹرول و بجلی — مزید مہنگائی کی تیاری
پٹرول پر کاربن لیوی اور بجلی پر وفاق کو سرچارج بڑھانے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ ان اقدامات سے فیول اور بجلی مزید مہنگے ہوں گے، اور مہنگائی کی ایک اور لہر آئے گی۔
With increased carbon levies and federal permission to raise electricity surcharges, fuel and power will become more expensive, likely triggering a new wave of inflation.
0 Comments